سرکار دو عالم کی ۹ تلواریں اور انکا تعارف
البتّار
یہ تلوار سرکارِ دو عالم نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کو یثرب کے یہودی قبیلے (بنو قینقاع ) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار کو (سیف الانبیاء) نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس تلوار پر حضرت داؤودؑ، سلیمانؑ، ہارونؑ، یسعؑ، زکریاؑ، یحیٰؑ، عیسیٰؑ اور محمدؐ کے اسماء مبارکہ کنندہ ہیں۔ یہ تلوار حضرت داؤودؑ کو اس وقت مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی جب ان کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔ اس تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے جس میں حضرت داؤودؑ کو جالوت کا سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے جو کہ اس تلوار کا اصلی مالک تھا۔ مزید تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بنا ہوا ہے جو بتراء شہر کے قدیمی عرب باشندے (البادیون) اپنی ملکیتی اَشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ بعض روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہی وہ تلوار ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں واپس آنے کے بعد اللہ کے دشمن ’کانے دجال‘ کا خاتمہ کریں گے اور دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے۔اس تلوار کی لمبائی 101 سینٹی میٹر ہے ۔اور آجکل یہ تلوار ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
المأثور
یہ تلوار حضور پاک ﷺ کو اپنے والد ماجد کی وراثت کے طور پر نبوت کےاعلان سے قبل ملی تھی۔ یہ تلوار ایک اور نام ’مأثور الفجر‘ سے بھی مشہور ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کی معیت میں جب یثرب کی طرف حجرت فرمائی تو یہی تلوار آپ ﷺ کے پاس تھی۔ بعد میں آپ ﷺ نے یہ تلوار بمع دیگر چند االالتِ حرب حضرت علی کرم اللہ وجہ کو عطا فرما دیئے تھے۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا بنا ہوا ہے اور دونوں اطراف سے مڑا ہوا ہے۔ مزید خوبصورتی کیلئے اس پر زمرد اور فیروز جڑے ہوئے ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے ہے ۔اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
الحتف
یہ تلوار بھی نبی پاک ﷺ کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ یہ تلوار حضرت داؤودؑ کے مبارک ہاتھوں سے بنی ہوئی ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے لوہے کے سازوسامان خاص طور پر ڈھالیں، تلواریں اور دیگر آلالتِ حرب بنانے میں خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی۔ حضرت داؤودؑ نے اس تلوار کو ’بتّار‘ سے ملتا جلتا لیکن سائز مین اُس سے بڑا بنایا۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس اپنے آباء و اجداد بنو اسرائیک کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی حتٰی کہ آخر میں یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کےمبارک ہاتھوں میں مالِ غنیمت کے طور پر پونہچی۔ اس تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی 8 سینٹی میٹر ہے۔اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
الذوالفقار
یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کو غزوہِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ تاریخی مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعد میں آپ ﷺ نے یہ تلوار حضرت علیؓ کو عطا فرما دی تھی۔ غزوہِ اُحد میں حضرت علیؓ اسی تلوار کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترے اور مشرکینِ مکہ کے کئی بڑے بڑے سرداروں کو واصلِ جہنم کیا۔ اکثر حوالے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ تلوار خاندانِ حضرت علیؓ میں باقی رہی۔ اس تلوار کی وجہِ شہرت یا تو دو دھاری ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر اس پر بنے ہوئے ہوئے دو نوک نقش و نگار کی وجہ سے ہے۔ اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
الرسّوب
یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کی ملکیتی 9 تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ خاندانِ رسول ﷺ میں یہ تلوار بالکل ویسے ہی محفوظ منتقل ہوتی ریہ جس طرح ’تابوت العہد‘ بنو اسرئیل میں خاندان در خاندان محفوظ رہا اور نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر حضرت جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی کنندہ ہے۔
اس تلوار کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے ۔
اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔
اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
المِخذم
اس تلوار کے حوالے سے دو مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔
اول یہ تلواررسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو عطا فرمائی اور بعد میں اولادِ علی میں وراثت کے طور پر نسل در نسل چلتی رہی۔ دوئم یہ تلوار سیدنا علیؓ کو اہلِ شام نکے ساتھ ایک معرکہ میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار پر ’زین الدین العابدین‘ کے الفاظ کنندہ ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے۔ اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
القضیب
یہ تلوارنحیف اور بہت کم چوڑائی والی ہے بلکہ اسی طرح جس طرح کسی تنگ راستے کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ تلوار سرکارِ دو عالم ﷺ کے ہمراہ دفاع یا رفیقِ سفر کے طور پر تو ضرور موجود رہی مگر اس تلوار سے کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار پر چاندی کے ساتھ ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘ کے الفاظ کنندہ ہیں۔کوئی ایسا تاریخی حوالہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں دیتا کہ تلوار کسی طور سے بھی آپ ؐ کی حیاتِ طیبہ میں کسی جنگ میں استعمال ہوئی۔ تلوار ہمیشہ آپ ﷺ کے گھر میں موجود رہی۔ لیکن فاطمینوں کے عہدِ خلافت میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا۔
اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی میان کسی جانور کی کھال کی بنی ہوئی ہے۔
اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔
اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
العضب
یہ تلوار (العضب یعنی تیز دھار والی) پیارے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو آپؐ کے صحابی حضرت سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوہ اُحد سے قبل تحفہ دی تھی۔ آپؐ نے اُحد والے دن یہی تلوار حضرت ابو دجانہ الانصاریؓ کو عطا فرما دی تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اُتر کر اللہ اور اُس کے رسولؐ کے دشمنوں پر اسلام کی قوت و عظمت کا مظاہرہ کریں۔
آجکل یہ تلوار مصر کے شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔
اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں۔
القلعی
لفظ قلعی کا تعلق یا تو شام کے کسی علاقہ سے دکھائی دیتا ہے یا پھر ہندوستان اور چین کے کسی سرحدی علاقے سے ہے۔ جب کہ ایک طبقہ کے علماء یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ کیونکہ قلعی ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے اس تلوار کی وجہ تسمیہ ہو سکتی ہے۔ یہ تلوار ان تین تلواروں میں سے ایک ہے جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے جنگ میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھیں۔
اسکے علاوہ اس تلوار کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ حضور پاک ؐ کے دادا حضرت عبد المطلب نے اس تلوار اور سونے کے بنے ہوئے دو ہرنوں کو زمزم کے کنویں سے نکلوایا تھا جو کہ قبیلہ جرہم الحمیریہ (حضرت اسماعیلؑ کا سسرالی قبیلہ) نے یہاں پر ایک زمانہ قبل دفن کئے تھے۔ بعد میں حضرت عبد المطلب نے اس تلوار کو بمعہ دیگر قیمتی سامان (سونا) بیت اللہ میں حفاظت سے رکھوا دیا ۔ تلوار پر دستہ کے قریب یہ الفاظ کنندہ ہیں (ھٍذہ السیف المشرفیی لبیت محمد رسول اللہ : یہ تلوار محمد رسول اللہ ﷺ کے گھرانے کی عزت کی علامت ہے)۔ تلوار کی خوبصورت میان اسکو دوسری تلواروں میں ایک نمایاں مقام دیتی ہے۔
اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے ۔
اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔
اس تلوار کی تصویر ’محمد حسن محمد التھامی‘ کی محفوظات سے لی گئی ہے ۔ اس نے یہ تصاویر 1312ھ بمطابق 1929ء میں اپنے مقالہ (رسول اللہ ﷺ کی تلواریں اور سامانِ حرب) کے سلسلہ میں بنائیں