Tuesday, September 20, 2011
Sunday, September 18, 2011
حدیث
حضرت خالد بن معدان سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (رات کے ابتدائی حصہ میں) اس سورۃ کو پڑھا کرو جو (قبر و حشر کے) عذاب سے نجات دینے والی ہے اور وہ سورۃ الم تنزیل ہے کیونکہ (صحابہ سے) مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص تھا جو یہی سورۃ پڑھا کرتا تھا وہ اس سورۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتا تھا (یعنی اس سورۃ کے علاوہ اور کسی چیز کو ورد نہیں قرار دیا تھا) اور وہ شخص بہت زیادہ گنہگار تھا، چنانچہ (جب اس شخص کا انتقال ہوا تو) اس سورت نے اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے اور فریاد کی کہ اے میرے پروردگار! اس شخص کی بخشش فرما کیونکہ یہ مجھے بہت زیادہ پڑھا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں اس سورت کی شفاعت قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ (اس کے نامہ اعمال میں) اس کے ہر گناہ کے بدلہ نیکی لکھ دو اور اس کے درجات بلند کر دو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے کہ بے شک یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی طرف سے قبر میں جھگڑتی ہے کہ یا الٰہی! اگر میں تیری کتاب (قرآن کریم) میں سے ہوں جو لوح محفوظ میں لکھا ہے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور اگر (بفرض محال) میں تیری کتاب میں سے نہیں ہوں تو مجھے اس میں سے مٹا دے۔ نیز حضرت خالد نے فرمایا یہ سورت (قبر میں) ایک پرندہ کی مانند آئے گی اور اس پر اپنے بازو پھیلا کر اس کے لئے (اللہ تعالیٰ سے) شفاعت کرے گی۔ حضرت خالد نے سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک کے بارہ میں بھی یہی کہا ہے کہ (اس سورۃ کی بھی یہی تاثیر اور برکت ہے) حضرت خالد کا معمول یہ تھا کہ وہ دونوں سورتیں پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کریم کی ہر سورۃ پر ساٹھ نیکیوں کے ساتھ فضیلت بخشی گئی ہے۔ (دارمی یعنی ان دونوں روایتوں کو ایک حضرت خالد سے اور دوسری حضرت طاؤس سے منقول ہے، دارمی نے نقل کیا ہے)۔
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 686
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
الم تنزیل پڑھنے کی برکت
تشریح
حضرت خالد ایک جلیل القدر تابعی ہیں ستر صحابہ سے ملاقات اور صحبت کا شرف حاصل ہے اسی طرح حضرت طاؤس بھی مشاہیر تابعین میں سے ہیں لہٰذا حضرت خالد اور حضرت طاؤس دونوں سے منقول مذکورہ بالا روایتیں اگرچہ مرسل ہیں (کہ یہاں صحابی کا واسطہ ذکر نہیں کیا گیا ہے) لیکن حکم میں مرفوع ہی کے ہیں کیونکہ اس قسم کی باتیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے معلوم ہو سکتی ہیں جو صحابہ کے ذریعہ تابعین تک پہنچتی ہیں اس لیے یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ دونوں حضرات کے اپنے اقوال نہیں بلکہ مرفوع روایتیں ہیں۔
اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ یا اس کا ثواب پرندہ کی صورت اختیار کر گیا اور اپنے بازو اپنے پڑھنے والے پر پھیلا دئیے تاکہ اس پر سایہ کر لے یا یہ کہ اس نے اپنی رحمت کے بازو پھیلا دئیے یعنی اسے اپنی پناہ میں لے لیا اور اس کی طرف سے شفاعت و وکالت کی۔
قبر میں جھگڑتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے مداومت کے ساتھ تو یہ سورۃ اس کے لئے عذاب کی تخفیف یا قبر میں فراخی و وسعت یا اسی قسم کی دوسری آسانی و سہولت کی شفاعت و سفارش کرتی ہے۔
حضرت طاؤس کی روایت کے یہ الفاظ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی ہر سورۃ پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس صحیح روایت کے منافی نہیں ہے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کی تمام سورتوں سے افضل ہے کیونکہ سورۃ بقرہ کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں بہت عمدہ اور اعلیٰ مضامین مذکور ہیں اور ان دونوں سورتوں کو اس جہت و اعتبار سے فضیلت حاصل ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہیں۔
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 686
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
الم تنزیل پڑھنے کی برکت
تشریح
حضرت خالد ایک جلیل القدر تابعی ہیں ستر صحابہ سے ملاقات اور صحبت کا شرف حاصل ہے اسی طرح حضرت طاؤس بھی مشاہیر تابعین میں سے ہیں لہٰذا حضرت خالد اور حضرت طاؤس دونوں سے منقول مذکورہ بالا روایتیں اگرچہ مرسل ہیں (کہ یہاں صحابی کا واسطہ ذکر نہیں کیا گیا ہے) لیکن حکم میں مرفوع ہی کے ہیں کیونکہ اس قسم کی باتیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے معلوم ہو سکتی ہیں جو صحابہ کے ذریعہ تابعین تک پہنچتی ہیں اس لیے یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ دونوں حضرات کے اپنے اقوال نہیں بلکہ مرفوع روایتیں ہیں۔
اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ یا اس کا ثواب پرندہ کی صورت اختیار کر گیا اور اپنے بازو اپنے پڑھنے والے پر پھیلا دئیے تاکہ اس پر سایہ کر لے یا یہ کہ اس نے اپنی رحمت کے بازو پھیلا دئیے یعنی اسے اپنی پناہ میں لے لیا اور اس کی طرف سے شفاعت و وکالت کی۔
قبر میں جھگڑتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے مداومت کے ساتھ تو یہ سورۃ اس کے لئے عذاب کی تخفیف یا قبر میں فراخی و وسعت یا اسی قسم کی دوسری آسانی و سہولت کی شفاعت و سفارش کرتی ہے۔
حضرت طاؤس کی روایت کے یہ الفاظ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی ہر سورۃ پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس صحیح روایت کے منافی نہیں ہے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کی تمام سورتوں سے افضل ہے کیونکہ سورۃ بقرہ کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں بہت عمدہ اور اعلیٰ مضامین مذکور ہیں اور ان دونوں سورتوں کو اس جہت و اعتبار سے فضیلت حاصل ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہیں۔
حدیث
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کی طلب میں سورۃ یٰسین پڑھتا ہے تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں جو اس نے پہلے کئے ہیں لہٰذا اس سورۃ کو اپنے مردوں کے سامنے پڑھو۔ بیہقی
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 688
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
قریب المرگ کے سامنے یٰس کا پڑھنا
تشریح
گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کہ وہ اس سورۃ کی برکت سے بخش دئیے جاتے ہیں اسی طرح کبیرہ گناہ بھی بخشے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت شامل حال ہو۔
مردوں سے مراد قریب المرگ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص قریب المرگ ہو اس کے سامنے سورہ یٰسین پڑھنی چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کو سنے اور اس کے معانی کی طرف اس کی توجہ ہو اس طرح اس کا سننا اس کے پڑھنے کے حکم میں ہو جائے گا جو اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہو گا۔ یا پھر مردوں سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سورت کو اپنی میت کی مغفرت و بخشش کی زیادہ احتیاج ہوتی ہے۔
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 688
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
قریب المرگ کے سامنے یٰس کا پڑھنا
تشریح
گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کہ وہ اس سورۃ کی برکت سے بخش دئیے جاتے ہیں اسی طرح کبیرہ گناہ بھی بخشے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت شامل حال ہو۔
مردوں سے مراد قریب المرگ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص قریب المرگ ہو اس کے سامنے سورہ یٰسین پڑھنی چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کو سنے اور اس کے معانی کی طرف اس کی توجہ ہو اس طرح اس کا سننا اس کے پڑھنے کے حکم میں ہو جائے گا جو اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہو گا۔ یا پھر مردوں سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سورت کو اپنی میت کی مغفرت و بخشش کی زیادہ احتیاج ہوتی ہے۔
حدیث
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سورۃ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ احمد
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 692
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
سورہ اعلیٰ کی فضیلت
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہ اعلیٰ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو اس لیے بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے کہ اس میں یہ آیت (اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى 18 صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى 19ۧ ) 87۔ الاعلی : 18۔19) ہے جو قرآن کریم کی حقانیت و صداقت پر شاہد اور مشرکین و اہل کتاب کے خیالات و اعتقادات کی بہت مضبوط تردید ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں تمام مثالیں بیان کی گئی ہیں مثلا کہا گیا ہے کہ اے مسلط! گرفتار نفس اور فریب خوردہ بادشاہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ تو دنیا جمع کرنے لگے بلکہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے بھیجا تھا کہ تو مظلوموں کی بد دعا سے بچے کیونکہ میں مظلوموں کی بد دعا رد نہیں کرتا خواہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو سلیم الطبع اور عقل مند انسان کے لئے لازم ہے کہ جب تک اس میں عقل ہو وہ اپنے لیے چار اوقات مقرر کرے ایک وقت میں تو وہ اپنے رب سے مناجات کرے، دوسرے وقت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، تیسرے وقت میں خدا کی صفت و قدرت میں غور و فکر کرے اور چوتھے وقت میں اپنی حاجت مثلا کھانے پینے وغیرہ میں مشغول رہے۔ عقل مند کے لئے لازم ہے کہ وہ صرف تین چیزوں کی طمع کرے (١) معاد (آخرت) کے لئے زاد راہ تیار کرنے کی (٢) یا اپنی معاش کی اصلاح کی (٣) یا غیر حرام سے لذت و نفع حاصل کرنے کی۔ عقلمند کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے زمانہ پر نظر رکھنے والا ہو، اپنے حال کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو (یاد رکھو) جس شخص نے اپنے کلام کا اپنے اعمال سے محاسبہ کیا اس کا کلام زیادہ نہیں ہو گا وہ صرف وہی کلام کرے گا جو ضروری ہو۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں عبرتیں یعنی ڈرانے کی باتیں تھیں مثلا اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو موت پر یقین رکھتا ہے مگر اس کے باوجود (وہ اپنی دنیاوی زندگی کے عیش و عشرت پر) خوش بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دوزخ کی آگ پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی ہنستا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو تقدیر پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی (طلب معاش کے سلسلہ میں) رنج و غم اٹھاتا ہے مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دنیا اور اس کے انقلابات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اس سے مطمئن رہتا ہے اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو کل (قیامت) کے دن کے حساب پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی عمل نہیں کرتا۔
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 692
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
سورہ اعلیٰ کی فضیلت
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہ اعلیٰ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو اس لیے بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے کہ اس میں یہ آیت (اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى 18 صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى 19ۧ ) 87۔ الاعلی : 18۔19) ہے جو قرآن کریم کی حقانیت و صداقت پر شاہد اور مشرکین و اہل کتاب کے خیالات و اعتقادات کی بہت مضبوط تردید ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں تمام مثالیں بیان کی گئی ہیں مثلا کہا گیا ہے کہ اے مسلط! گرفتار نفس اور فریب خوردہ بادشاہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ تو دنیا جمع کرنے لگے بلکہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے بھیجا تھا کہ تو مظلوموں کی بد دعا سے بچے کیونکہ میں مظلوموں کی بد دعا رد نہیں کرتا خواہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو سلیم الطبع اور عقل مند انسان کے لئے لازم ہے کہ جب تک اس میں عقل ہو وہ اپنے لیے چار اوقات مقرر کرے ایک وقت میں تو وہ اپنے رب سے مناجات کرے، دوسرے وقت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، تیسرے وقت میں خدا کی صفت و قدرت میں غور و فکر کرے اور چوتھے وقت میں اپنی حاجت مثلا کھانے پینے وغیرہ میں مشغول رہے۔ عقل مند کے لئے لازم ہے کہ وہ صرف تین چیزوں کی طمع کرے (١) معاد (آخرت) کے لئے زاد راہ تیار کرنے کی (٢) یا اپنی معاش کی اصلاح کی (٣) یا غیر حرام سے لذت و نفع حاصل کرنے کی۔ عقلمند کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے زمانہ پر نظر رکھنے والا ہو، اپنے حال کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو (یاد رکھو) جس شخص نے اپنے کلام کا اپنے اعمال سے محاسبہ کیا اس کا کلام زیادہ نہیں ہو گا وہ صرف وہی کلام کرے گا جو ضروری ہو۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں عبرتیں یعنی ڈرانے کی باتیں تھیں مثلا اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو موت پر یقین رکھتا ہے مگر اس کے باوجود (وہ اپنی دنیاوی زندگی کے عیش و عشرت پر) خوش بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دوزخ کی آگ پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی ہنستا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو تقدیر پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی (طلب معاش کے سلسلہ میں) رنج و غم اٹھاتا ہے مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دنیا اور اس کے انقلابات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اس سے مطمئن رہتا ہے اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو کل (قیامت) کے دن کے حساب پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی عمل نہیں کرتا۔
اُمیدِ ثمر
اُمیدِ ثمر
حامد کمال الدین
کوئی شخص اپنی ”امید“ میں سچا ہے تو وہ اس کی ”طلب“ میں ضرور نکلتا ہے! راستہ جہنم کا اور امید جنت کی، اسی کو علمائے قلوب کی اصطلاح میں ’فریب‘ اور ’غرورِ آرزو‘ کہتے ہیں۔ نہ اس کا نام ’امید‘ ہے اور نہ ’خدا کے ساتھ حسنِ ظن‘! آدمی جہنم کے بیج بوئے اور اس سے جنت کے میووں کی آس کرے، یہ خوش زعمی اور نادانی ہے اور درحقیقت شیطان کے جھانسے میں آجانا!۔
کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا:۔
نجات کے متلاشی ہو، مگر راستہ تباہی کا چل رہے ہو
امید کی جس کشتی پہ جا بیٹھے ہو، یہ ’خشکی‘ پر تو آخر نہیں چلے گی!۔
گناہ ہیں تو تب کیا ہے، ’امید‘ کا راستہ تو بہت کھلا ہے! مگر تعجب تو اس شخص پر ہے جو ’توبہ‘ اور ’عمل صالح‘ کی طرف آنے کا نام نہیں لیتا اور برابر ’خوش گمانی‘ کا سہارا لئے بیٹھا ہے!۔
خدا کے ہاں جو سلامتی کا گھر ہے، اس میں اگر اسکے سوا کوئی اور خوبی نہ ہوتی کہ نہ تو وہاں ’موت‘ اور نہ ’بیماری‘ اور نہ ’پریشانی‘.. تو بخدا لوگ اِس جہان کو چھوڑ چھوڑ کر اُس کی جانب بھاگ رہے ہوتے! لوگ اگر کسی ایسے جزیرے کا سن لیں جس میں موت کا گزر نہیں تو سب لوگ اسی کا رخ کررہے ہوتے، چاہے یہاں کے محلات چھوڑ کر وہاں پُرمشقت زندگی کیوں نہ گزارنی پڑے! جبکہ خدا نے تو یہ بھی نہیں کہا کہ اِسکو چھوڑ کر وہاں آؤ۔ اُس نے تو صرف یہ کہا ہے کہ جب یہاں تمہارا وقت پورا ہوجائے تو وہاں آجاؤ، مگر تیاری کرکے! بھلا اس سے بہتر کوئی پیش کش ہوسکتی ہے؟۔
زمین پر اگر ایسا کوئی جزیرہ ہوتا جہاں موت نہیں، تو لوگ اپنے بنے بنائے مکانات اور زمینیں جائدادیں سب چھوڑ کر وہاں کوچ کر رہے ہوتے، چاہے وہاں ان کو فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں.... تو پھر اُس جہان کی بابت کیا خیال ہے جس میں لوگ بادشاہوں کی طرح رہیں گے! سدا خوشیوں اور لذتوں میں لوٹیں گے! جو دل خواہش کرلے سو حاضر ہو۔ جو نگاہ کو لطف دے وہ دیکھنے کو ملے، اور خلد کی نعمت اس پر سوا! ایک نعمت سے دل بھرا نہ ہوگا کہ ایک اور نعمت آدمی کی نگاہِ التفات کی منتظر! ایک ایسی دنیا جو ’زوال‘ کے مفہوم سے ہی آشنا نہیں! وہاں تو ’نیند‘ نہیں، کیونکہ نعمتیں اتنی ہیں اور دلچسپیوں کا سامان اس قدر ہے کہ لطف و سرود سے فرصت ہی نہیں! نعمت کہ نری نعمت ہو، اور ساتھ میں کسی مصیبت یا پریشانی کی ذرہ بھر آلائش نہ ہو، ایسی نعمت کا تو تصور ہی نہیں مگر اسی ’سلامتی کے گھر میں‘ جو خدا کے ہاں پایا جاتا ہے!۔
برادرم! دنیا آخرت کی ’کھیتی‘ ہے۔ یہ ’قلب‘ جو تمہیں حاصل ہے دراصل یہ تمہاری ’زمین‘ ہے۔ چاہو تو اس کو سنوار لو اور پھر اس میں ’ایمان‘ کا بیج بو لو۔ بندگی کے افعال سے اس کو ’سیراب‘ کرو۔ گناہوں اور نافرمانیوں کا ’جھاڑ جھنکاڑ‘ یہاں پر تلف کرنے میں برابر لگے رہو۔ اور قیامت اس ’کٹائی‘ کا دن ہے۔ کچھ بھی نہیں تو ایک نظر تو روز ہی اس ’زمین‘ میں دوڑا لیا کرو۔ یہاں جو فصل پکنے کے لئے آج چھوڑ دی گئی ہے، ’آخرت‘ میں یہی ’دانے‘ گھر آئیں گے، اور پھر باقی عمر یہی کھانے ہوں گے! ہونا تو یہ چاہیے کہ نگاہ کو اس فصل کی دیکھ بھال سے فرصت ہی نہ ملے! کوئی سال دو سال کا تو معاملہ نہیں یہ تو ’زندگی کی فصل‘ ہے!۔
وہ قوی ترین جذبہ جس کی بدولت ایک ’فصل‘ کے اگانے میں آدمی اپنا دل ڈال دیا کرے، اس جذبہ کا نام ’امید‘ ہے۔ ’امید‘ ایک حقیقی جذبہ ہے۔ ’تعمیر‘ کی نہایت مضبوط بنیاد ہے۔ پھر اگر فصل ایک جہان میں بو کر کٹائی ایک دوسرے جہان میں جاکر کرنی ہو، پھر تو ’امید‘ کی ایک خاص ہی کیفیت درکار ہے۔ ’امید‘ کی یہ صورت خدا کی صفات اور خدا کی شان جاننے کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے۔
پس ’امید‘ کی وہ عظیم ترین صورت جو ایک لافانی جہان سے وابستہ ہے، انسان کے ہاں پایا جانے والا ایک برگزیدہ ترین جذبہ ہے۔ یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی ایک خاص ہیئت ہے!۔
ہر کسان اپنا بیج جب مٹی میں گم کر دیتا ہے تو اس کے دامن میں ’امید‘ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا!زمین کی اس خاصیت پر اگر اس کا اعتماد نہ ہو کہ یہ ’دانے‘ کو کھا نہیں جائے گی جبکہ اسکے سوا ہر چیز جو اِس میں ڈالی جائے یہ اس کو واقعتا کھا جاتی ہے، نم کی صلاحیت پر اگر اس کو بھروسہ نہ ہو کہ یہ بیج کو پھٹنے اور کونپل بننے میں مدد دے گا، ہوا اور دھوپ پر اگر اس کو یقین نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر بیج کی صلاحیت سے اگر وہ مطمئن نہ ہو.... تو کبھی وہ اپنے کھانے کے دانے مٹی کو نہ دے آیا کرے! مگر بات یہ ہے کہ اپنے یہ دانے اگر وہ رکھ بھی لے تو آخر کب تک کھائے گا؟! ’دانے‘ تو ’مٹی‘ سے ہی ایک نیا جنم پاکر آئیں تو بات بنتی ہے!۔
پس ’امید‘ تو کچھ کھو کر پانے کی ترکیب کا نام ہے! ’امید‘ یہ نہیں کہ آدمی اپناسب کچھ اپنے پاس رکھ چھوڑے اور اپنی کسی لذت کی قربانی کا روادار نہ ہو! ایسا شخص تو آخری درجے کا ’ناامید‘ کہلانے کا مستحق ہے!۔
’دل‘ کی زمین میں ’عبادت‘ کی فصل بونا اور اس کو مسلسل ’نم‘ فراہم کرنااور ’نیکی‘ کے اوزاروں سے مسلسل اس کی نگہداشت میں لگے رہنا.... ’امید‘ کی تصویر تو اصل میں یہ ہے! اور خدا کو اس کے اسماءوصفات سے جاننا بھی دراصل یہ! تبھی تو آخرت کا انکار خدا کا انکار ہے، خصوصاً خدا کی عظمت و کبریائی اور حکمت ودانائی اور اس کی رحمت و کرم اور اُس کے وکیل وکارساز اور قابل بھروسہ ہونے کا انکار ہے!۔
’امید‘ ایسا عظیم جذبہ جو قلبِ مومن میں موجزن ہوتا ہے، اور خدا کی بے شمار صفاتِ کمال پر یقین کا ایک عکسِ جلی ہے، اس کا ایک فاجر شخص کے اس اندازِ فکر سے کیا تعلق جو پورے دھڑلے سے خدا کی نافرمانی کرتے وقت کہے: ’ارے کیا ہوتا ہے‘؟
حدیث
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پڑھائیے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کی ان سورتوں میں سے کہ جن کے شروع میں الر ہے پڑھو۔ اس نے عرض کیا میری عمر زیادہ ہو چکی ہے اور دل میرا سخت ہو گیا ہے (یعنی میرے قلب پر حافظہ کی کمی اور نسیان کا غلبہ ہے ) نیز میری زبان موٹی ہے (یعنی کلام اللہ خصوصا! بڑی سورتیں میں یاد نہیں کر سکتا ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم وہ سورتیں نہیں پڑھ سکتے تو ان سورتوں میں سے تین سورتیں پڑھو جن کے شروع میں حم ہے (کیونکہ یہ سورتیں ان سورتوں کی نسبت چھوٹی ہیں) اس شخص نے پھر وہی کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی جامع سورت پڑھائیے (یعنی کوئی ایسی سورۃ بتائیے جس میں بہت سی باتیں جمع ہوں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سورہ اذا زلزلت پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (پوری سورت پڑھا کر) اس سے فارغ ہوئے اس شخص نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں (اس سورۃ پر عمل کرنے کے سلسلہ میں) اس پر کبھی بھی زیادتی نہیں کروں گا۔ پھر اس شخص نے پیٹھ پھیری (یعنی جب واپس ہو گیا) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے مراد حاصل کر لی یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا۔ احمد، ابوداؤد
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 693
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
جامع سورت
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 693
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
جامع سورت
شمائل ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 117
ابراہیم بن محمد کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر فرماتے تو یہ فرماتے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تھے تو ہمت اور قوت سے پاؤں اٹھاتے (عورتوں کی طرح سے پاؤں زمین سے گھسیٹ کر نہیں چلتے تھے۔ چلنے میں تیزی اور قوت کے لحاظ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ) گویا اونچائی سے اتر رہے ہیں ۔
شمائل ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 117
1 - حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان : (390)
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کا ذکر
شمائل ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 117
1 - حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان : (390)
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کا ذکر
Ebrahim bin Muhammad says: "When 'Ali Radiyallahu 'Anhu described Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, he used to say: Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam walked, he lifted his leg with vigour. He did not drag his feet on the ground like women do. When he walked, because of the speed and force of the legs, it seemed as if he was descending from a high place".
Shumael e Tirmizi Jild 1 Hadith Number 117
Shumael e Tirmizi Jild 1 Hadith Number 117
قائد اعظم کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات
Saturday, September 17, 2011
Masoom Bachpan
Masoom Bachpan
Chalo phir dhoond laaen hum ussi masoom bachpan ko
Unhi masoom khushion ko , unhi rangeen lamhon ko
Jahaan gham ka pta na tha jahaan dukh ki samajh na thi
Jahaan bus muskurahat thi bahaaren hi bahaaren theen
K jab sawan barasta tha to uss kaghaz ki kashti ko
Banana phir dubaa dena boht achha sa lagta tha
Chalo phir dhoond laaen hum ussi masoom bachpan ko
Friday, September 9, 2011
suna hoga boht tum ne ….
suna hoga boht tum ne ….
kaheen aankhon ki rim jhim ka
kaheen palkon ki shabnam ka…
parha hoga boht tum ne ….
kaheen lehjay ki barish ka
kaheen sagar ke aansoo ka…
magar tum ne kabhi humdam …
kaheen dekhay? kaheen parkhay?
kisi tehreer ke aansoo??…!!
mujhe teri judaai ne …
yehi mairaaj bakhshi he…
ke men jo lafz likhta hoon …
woh saray lafz rotay hen
ke men jo harf bunta hoon …
woh saray bain kartay hen
mere sang is judaai men …
mere alfaz martay hen
sabhi tareef kartay hen …
meri tehreer ki lekin..
kabhi koi naheen sunta …
mere alfaaz ki siski…
falak bhi jo hila daalay..
mere lafzon men hen shamil …
ussi taseer ke aansoo…
kabhi dekho mere humdam…
meri tehreer ke aansoo..!!!
Subscribe to:
Posts (Atom)