Sunday, September 18, 2011

حدیث

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سورۃ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ احمد

مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 692 
48 - فضائل قرآن کا بیان : (109)
سورہ اعلیٰ کی فضیلت

تشریح
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہ اعلیٰ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو اس لیے بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے کہ اس میں یہ آیت (اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى 18 صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى 19۝ۧ ) 87۔ الاعلی : 18۔19) ہے جو قرآن کریم کی حقانیت و صداقت پر شاہد اور مشرکین و اہل کتاب کے خیالات و اعتقادات کی بہت مضبوط تردید ہے۔
 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں تمام مثالیں بیان کی گئی ہیں مثلا کہا گیا ہے کہ اے مسلط! گرفتار نفس اور فریب خوردہ بادشاہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ تو دنیا جمع کرنے لگے بلکہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے بھیجا تھا کہ تو مظلوموں کی بد دعا سے بچے کیونکہ میں مظلوموں کی بد دعا رد نہیں کرتا خواہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو سلیم الطبع اور عقل مند انسان کے لئے لازم ہے کہ جب تک اس میں عقل ہو وہ اپنے لیے چار اوقات مقرر کرے ایک وقت میں تو وہ اپنے رب سے مناجات کرے، دوسرے وقت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، تیسرے وقت میں خدا کی صفت و قدرت میں غور و فکر کرے اور چوتھے وقت میں اپنی حاجت مثلا کھانے پینے وغیرہ میں مشغول رہے۔ عقل مند کے لئے لازم ہے کہ وہ صرف تین چیزوں کی طمع کرے (١) معاد (آخرت) کے لئے زاد راہ تیار کرنے کی (٢) یا اپنی معاش کی اصلاح کی (٣) یا غیر حرام سے لذت و نفع حاصل کرنے کی۔ عقلمند کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے زمانہ پر نظر رکھنے والا ہو، اپنے حال کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو (یاد رکھو) جس شخص نے اپنے کلام کا اپنے اعمال سے محاسبہ کیا اس کا کلام زیادہ نہیں ہو گا وہ صرف وہی کلام کرے گا جو ضروری ہو۔
 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس میں عبرتیں یعنی ڈرانے کی باتیں تھیں مثلا اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو موت پر یقین رکھتا ہے مگر اس کے باوجود (وہ اپنی دنیاوی زندگی کے عیش و عشرت پر) خوش بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دوزخ کی آگ پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی ہنستا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو تقدیر پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی (طلب معاش کے سلسلہ میں) رنج و غم اٹھاتا ہے مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دنیا اور اس کے انقلابات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اس سے مطمئن رہتا ہے اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو کل (قیامت) کے دن کے حساب پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی عمل نہیں کرتا۔

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.