پہلی کہانی
عبد الرحیم خان خاناں اکبر کو اکبر بنانے والے بیرم خان کا بیٹا اور مغل اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نورتنوں میں سے ایک تھا۔ خانخاناں سخاوت میں حاتم طائی سے کم نہ تھا لیکن عادت یہ تھی کہ ضرورت مندوں، محتاجوں میں مال و دولت کی تقسیم کے دوران نظریں نیچی رکھتا۔ ایک بار کسی نے اس عادت کا سبب پوچھا تو بولا۔
دینے والا دیوت ہے دیوت ہے دن رین
لوگ بھرم مجھ پر کریں سو نیچے رکھوں نین
یعنی وہ خود کو دینے والا نہیں اس کا فقط وسیلہ سمجھتا تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ لینے والے کی آنکھ میں ممنویت کے جذبات ہی دیکھ سکے… اور اب ذرا ان حکمرانوں کا تصور کریں جو ذاتی نہیں…سرکاری رقوم کے چیک بانٹتے ہوئے تصویریں اور فلمیں بنواتے ہیں لیکن رتی برابر شرم محسوس نہیں کرتے اور پوری ڈھٹائی و بے حیائی کے ساتھ محتاجوں اور ضرورت مندوں کی عزت نفس پامال کرتے ہیں۔
دوسری کہانی:
ہستناپور کے راجہ کے دربار میں پانچ عالم فاضل اور جید قسم کے پنڈت پدھارے جو سنسکرت ودیا کی خاص خاص شاخوں میں حرف آخر سمجھے جاتے تھے اور دور دور تک ان کے علوم و فنون کے ڈنکے بچتے تھے۔ ان میں سے ایک دیا کرنی (قواعد دان) تھا،دوسرا اعلیٰ پائے کا نیایک (منطقی)، تیسرا گندھرب ودیا (موسیقی) میں بے حد طاق اور ماہر تھا، چوتھا جوتشی تھا اور اس علم میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا جبکہ پانچواں اس درجہ کا وید(حکیم) تھا کہ مرتے ہوئے پر ہاتھ رکھ دے تو وہ اٹھ کر بیٹھ جائے۔ راجہ ان کی آمد پر نہایت خوش ہوا اور بیش قیمت زرو جواہر اور خلعتیں ان کی خدمت پیش کیں مگر جب تنہائی میں اپنے وزیراعظم سے ان کی قابلیت کا ذکر کیا تو وزیر نے کہا… ”میں ان احمقوں کی عزت نہیں کرتا۔ یہ دنیا میں کسی کام کے نہیں نہ اپنے کسی کام کے نہ غیر کے۔ بے مقصد باتوں کے علاوہ یہ بے کار کوئی کام نہیں جانتے“۔ راجہ نے کہا… ثابت کر ورنہ تیری وزارت گئی۔ وزیر نے کہا ”ہاتھ کنگن کو آر سی کیا؟ انہیں رہنے کو عمدہ مکان مع دولت اور سامان دے کر کہئے کہ موج کرو“۔ ایسا ہی کر دیا گیا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے اپنا اک خاص آدمی ان پر مقرر کر دیا کہ ان کی حرکات پر نظر رکھے۔
نیایک (منطقی) بازار میں گھی خریدنے گیا اور گھر آکر یہ سوچنے لگا کہ گھی برتن کے آدھار (سہارے) پر ہے یا برتن گھی کے آدھار پر ہے۔ طویل غور وفکر کے بعد جب اس نے برتن کو الٹا تو گھی گر گیا تو تب اس کو یقین ہوا کہ گھی برتن کے آدھار پر تھا۔ ادھر دیا کرنی یعنی قواعد دان دہی لینے گیا دہی بیچنے والی نے کہا ”دہی اچھی ہے“ بولا ”بے وقوف عورت دہی مذکر ہے مونث نہیں، اچھی نہیں اچھا کہو“ عورت چڑ کر بولی’ ’لعنت ہو تجھ پر میں نہیں بیچتی تجھے یہ مذکر یا مونث“ دیا کرنی نے کہا… ”اشبدہ شبد بولنا پاپ ہے اور تو پاپنی ہے“ عورت نے دہی کا کونڈا ہی اٹھا کر سر پر مار دیا اور پنڈت جی دہی میں لت پت بغیر دہی کے گھر چل دیئے۔ موسیقی کا ماہر جب چاول پکانے بیٹھا تو ہنڈیا ابلنے کی آواز کے ساتھ سورت، ادات، انودات پر وچار کرنے لگا کہ ابلنا کس راگ میں ہوگا مگر ہنڈیا کو سرتال کی کیا خبر… اسی چکر میں ہنڈیا جل گئی۔ جوتشی کے ذمہ پتل بنانے کا کام تھا۔ اس نے برگد کے پتے توڑ کر پتل بنانے شروع کئے تو رنگ بدلتے گرگٹ پر نظر پڑی۔ اسے اشبھ یعنی بدشگونی سمجھ کر درخت سے نیچے اتر آیا اور پتل بیچ میں ہی رہ گئی۔ وید جی ترکاری خریدنے گئے تو انہیں یہ ہول اٹھنے لگا کہ کوئی ترکاری بادی ہے کوئی پت ہے، کسی میں صفرا کا مادہ زیادہ ہے، کسی میں سودا اور کوئی بلغمی مزاج کی ہے سو خالی ہاتھ واپس آگئے۔ پورا دن بیت گیا، کھانا تیار نہ ہوسکا سو پانچوں بھوکے بیٹھے رہے۔ وزیر کے نوکر نے سارا حال جا سنایا اور وزیر نے راجہ کی خدمت میں پیش کر دیا تو اس نے کہا… ”یہ واقعی پڑھے لکھے گدھے ہیں، راجدھانی کو ان کے وجود سے پاک کر دو“۔
پاکستان کو بھی کیسے کیسے پنڈت، عالم، ایکسپرٹ اور ٹیکنو کریٹ نہیں ملے… فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں چمٹنے والے پنڈت اپنے لئے بہت سیانے اور سمجھدار تھے، قوم کے لئے صفرے ہی ثابت ہوئے۔
تیسرے کہانی:
سکھدیو باپ کے حکم پر گیان حاصل کرنے راجہ جنک کے پاس پہنچا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر شک میں پڑ گیا کہ یہ تو خود جگت بیوپاری ہے، اس سے خاک گیان ملے گا۔ جنک نے کٹورا دودھ کا منگوا کر سکھدیو کو تھما دیا۔ ساتھ مسلح سپاہی دیئے اور کہا … ”سکھدیو کو راگ رنگ کھیل تماشے کی مختلف محفلوں میں لے جاؤ لیکن اگر پیالے میں سے ایک قطرہ دودھ بھی گرے تو وہیں اس کی گردن کاٹ دینا“ سپاہیوں کا دستہ سکھدیو کو مختلف مقامات عیش و طرب میں لئے پھرا۔ شام ڈھلے واپس راجہ جنک کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا… ”دودھ تو نہیں گرا“ سپاہیوں نے عرض کیا”گرا ہوتا تو سکھدیو زندہ نہ ہوتا“ اب راجہ نے سکھدیو سے پوچھا… ”امید ہے خوب لطف اندوز ہوئے ہوگے“ بولا ”مہا راج! مجھے تو دودھ کے کٹورے نے ادھر ادھر دیکھنے ہی نہ دیا“۔ راجہ بولا…”جیسا تمہارا ایک دن گزرا، اسی طرح میری پوری زندگی بیت رہی ہے۔ تم میری سلطنت و حکومت، دولت و ثروت پر نہ جاؤ… ملک الموت کو سپاہی سمجھو تن کو کٹورا اور من کو دودھ جانو اور سلطنت کو سیرو تماشہ نہیں امتحان سمجھو“… لیکن افسوس سائی ولرو کے ہینڈ سٹچڈ سوٹ اور شتر مرغ یا سانپ کی کھال کے بوٹ پہننے والے کسی شخص کے لئے ایسی کسی کہانی کے کوئی معنی نہیں!
عبد الرحیم خان خاناں اکبر کو اکبر بنانے والے بیرم خان کا بیٹا اور مغل اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نورتنوں میں سے ایک تھا۔ خانخاناں سخاوت میں حاتم طائی سے کم نہ تھا لیکن عادت یہ تھی کہ ضرورت مندوں، محتاجوں میں مال و دولت کی تقسیم کے دوران نظریں نیچی رکھتا۔ ایک بار کسی نے اس عادت کا سبب پوچھا تو بولا۔
دینے والا دیوت ہے دیوت ہے دن رین
لوگ بھرم مجھ پر کریں سو نیچے رکھوں نین
یعنی وہ خود کو دینے والا نہیں اس کا فقط وسیلہ سمجھتا تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ لینے والے کی آنکھ میں ممنویت کے جذبات ہی دیکھ سکے… اور اب ذرا ان حکمرانوں کا تصور کریں جو ذاتی نہیں…سرکاری رقوم کے چیک بانٹتے ہوئے تصویریں اور فلمیں بنواتے ہیں لیکن رتی برابر شرم محسوس نہیں کرتے اور پوری ڈھٹائی و بے حیائی کے ساتھ محتاجوں اور ضرورت مندوں کی عزت نفس پامال کرتے ہیں۔
دوسری کہانی:
ہستناپور کے راجہ کے دربار میں پانچ عالم فاضل اور جید قسم کے پنڈت پدھارے جو سنسکرت ودیا کی خاص خاص شاخوں میں حرف آخر سمجھے جاتے تھے اور دور دور تک ان کے علوم و فنون کے ڈنکے بچتے تھے۔ ان میں سے ایک دیا کرنی (قواعد دان) تھا،دوسرا اعلیٰ پائے کا نیایک (منطقی)، تیسرا گندھرب ودیا (موسیقی) میں بے حد طاق اور ماہر تھا، چوتھا جوتشی تھا اور اس علم میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا جبکہ پانچواں اس درجہ کا وید(حکیم) تھا کہ مرتے ہوئے پر ہاتھ رکھ دے تو وہ اٹھ کر بیٹھ جائے۔ راجہ ان کی آمد پر نہایت خوش ہوا اور بیش قیمت زرو جواہر اور خلعتیں ان کی خدمت پیش کیں مگر جب تنہائی میں اپنے وزیراعظم سے ان کی قابلیت کا ذکر کیا تو وزیر نے کہا… ”میں ان احمقوں کی عزت نہیں کرتا۔ یہ دنیا میں کسی کام کے نہیں نہ اپنے کسی کام کے نہ غیر کے۔ بے مقصد باتوں کے علاوہ یہ بے کار کوئی کام نہیں جانتے“۔ راجہ نے کہا… ثابت کر ورنہ تیری وزارت گئی۔ وزیر نے کہا ”ہاتھ کنگن کو آر سی کیا؟ انہیں رہنے کو عمدہ مکان مع دولت اور سامان دے کر کہئے کہ موج کرو“۔ ایسا ہی کر دیا گیا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے اپنا اک خاص آدمی ان پر مقرر کر دیا کہ ان کی حرکات پر نظر رکھے۔
نیایک (منطقی) بازار میں گھی خریدنے گیا اور گھر آکر یہ سوچنے لگا کہ گھی برتن کے آدھار (سہارے) پر ہے یا برتن گھی کے آدھار پر ہے۔ طویل غور وفکر کے بعد جب اس نے برتن کو الٹا تو گھی گر گیا تو تب اس کو یقین ہوا کہ گھی برتن کے آدھار پر تھا۔ ادھر دیا کرنی یعنی قواعد دان دہی لینے گیا دہی بیچنے والی نے کہا ”دہی اچھی ہے“ بولا ”بے وقوف عورت دہی مذکر ہے مونث نہیں، اچھی نہیں اچھا کہو“ عورت چڑ کر بولی’ ’لعنت ہو تجھ پر میں نہیں بیچتی تجھے یہ مذکر یا مونث“ دیا کرنی نے کہا… ”اشبدہ شبد بولنا پاپ ہے اور تو پاپنی ہے“ عورت نے دہی کا کونڈا ہی اٹھا کر سر پر مار دیا اور پنڈت جی دہی میں لت پت بغیر دہی کے گھر چل دیئے۔ موسیقی کا ماہر جب چاول پکانے بیٹھا تو ہنڈیا ابلنے کی آواز کے ساتھ سورت، ادات، انودات پر وچار کرنے لگا کہ ابلنا کس راگ میں ہوگا مگر ہنڈیا کو سرتال کی کیا خبر… اسی چکر میں ہنڈیا جل گئی۔ جوتشی کے ذمہ پتل بنانے کا کام تھا۔ اس نے برگد کے پتے توڑ کر پتل بنانے شروع کئے تو رنگ بدلتے گرگٹ پر نظر پڑی۔ اسے اشبھ یعنی بدشگونی سمجھ کر درخت سے نیچے اتر آیا اور پتل بیچ میں ہی رہ گئی۔ وید جی ترکاری خریدنے گئے تو انہیں یہ ہول اٹھنے لگا کہ کوئی ترکاری بادی ہے کوئی پت ہے، کسی میں صفرا کا مادہ زیادہ ہے، کسی میں سودا اور کوئی بلغمی مزاج کی ہے سو خالی ہاتھ واپس آگئے۔ پورا دن بیت گیا، کھانا تیار نہ ہوسکا سو پانچوں بھوکے بیٹھے رہے۔ وزیر کے نوکر نے سارا حال جا سنایا اور وزیر نے راجہ کی خدمت میں پیش کر دیا تو اس نے کہا… ”یہ واقعی پڑھے لکھے گدھے ہیں، راجدھانی کو ان کے وجود سے پاک کر دو“۔
پاکستان کو بھی کیسے کیسے پنڈت، عالم، ایکسپرٹ اور ٹیکنو کریٹ نہیں ملے… فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں چمٹنے والے پنڈت اپنے لئے بہت سیانے اور سمجھدار تھے، قوم کے لئے صفرے ہی ثابت ہوئے۔
تیسرے کہانی:
سکھدیو باپ کے حکم پر گیان حاصل کرنے راجہ جنک کے پاس پہنچا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر شک میں پڑ گیا کہ یہ تو خود جگت بیوپاری ہے، اس سے خاک گیان ملے گا۔ جنک نے کٹورا دودھ کا منگوا کر سکھدیو کو تھما دیا۔ ساتھ مسلح سپاہی دیئے اور کہا … ”سکھدیو کو راگ رنگ کھیل تماشے کی مختلف محفلوں میں لے جاؤ لیکن اگر پیالے میں سے ایک قطرہ دودھ بھی گرے تو وہیں اس کی گردن کاٹ دینا“ سپاہیوں کا دستہ سکھدیو کو مختلف مقامات عیش و طرب میں لئے پھرا۔ شام ڈھلے واپس راجہ جنک کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا… ”دودھ تو نہیں گرا“ سپاہیوں نے عرض کیا”گرا ہوتا تو سکھدیو زندہ نہ ہوتا“ اب راجہ نے سکھدیو سے پوچھا… ”امید ہے خوب لطف اندوز ہوئے ہوگے“ بولا ”مہا راج! مجھے تو دودھ کے کٹورے نے ادھر ادھر دیکھنے ہی نہ دیا“۔ راجہ بولا…”جیسا تمہارا ایک دن گزرا، اسی طرح میری پوری زندگی بیت رہی ہے۔ تم میری سلطنت و حکومت، دولت و ثروت پر نہ جاؤ… ملک الموت کو سپاہی سمجھو تن کو کٹورا اور من کو دودھ جانو اور سلطنت کو سیرو تماشہ نہیں امتحان سمجھو“… لیکن افسوس سائی ولرو کے ہینڈ سٹچڈ سوٹ اور شتر مرغ یا سانپ کی کھال کے بوٹ پہننے والے کسی شخص کے لئے ایسی کسی کہانی کے کوئی معنی نہیں!
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.