Saturday, November 20, 2010

جب توپیدا ہوا تو کتنا مجبور تھا

جب توپیدا ہوا تو کتنا مجبور تھا
یہ جہاں تیری سوچوں سے بھی دور تھا

ہاتھ پائوں بھی تب تیرے اپنے نہ تھے
تیری آنکھوں میں دنیا کہ سپنےنہ تھے

تجھ کو آتا تھا جو کام وہ صرف رونا ہی تھا
دودھ پی کے تیرا کام صرف سونا ہی تھا

تجھ کو چلنا سکھایا ماں نے تیری
تجھ کو دل میں بسایا ماں نے تیری

ماں کے سائے میں پروان چھڑنےلگا
وقت کے ساتھ قد تیرا بڑھنے لگا

دھیرے دھیرے تو کڑیل جوان ہو گیا
تجھ پہ سارا جہاں مہرباں ہو گیا

زور بازو پہ تو بات کرنے لگا
خود ہی سجنے لگا خود سنورنے لگا

اک دن اک حسینہ تجھے بھا گی
بن کے دلہن وہ تیرے گھر آ گی

فرض اپنے سے تو دور ہونے لگا
بیچ نفرت کا خود ہی تو بولنے لگا

پھر تو ماں باپ کو بھی بھلانے لگا
تیر باتوں کے پھر توں چلانے لگا

بات بے بات ان سے تو لڑنے لگا
قائدہ اک نیا تو پھر پڑھنے لگا

یاد کر تجھ سے ماں نے کہا ایک دن
اب ہمارا گزارہ نہیں تیرے بن

سن کہ یہ بات تو طیش میں آ گیا
تیرا غصہ تیری عقل کو کھا گیا

جوش میں آکے تو نے یہ ماں سے کہا
میں تھا خاموش سب دیکھتا ہی رہا

آج کہتا ہوں پیچھا میرا چھوڑ دو
جو ہے رشتہ میرا تم سے وہ توڑ دو

جائو جا کے کہیں کام دھندا کرو
لوگ مرتے ہیں تم بھی کہیں جا مرو

بیٹھ کر آہیں بھرتے تھے وہ رات بھر
ان کی آہوں کا تجھ پہ ہوا نہ اثر

اک دن باپ تیرا چلا روٹھ کر
کیسی بکھری تھی پھر تیری ما ں ٹوٹ کر

پھر وہ بے بس اجل کو بلاتی رہی
زندگی روز اسکوستا تی رہی

ایک دن موت کو بھی ترس آ گیا
اسکا رونا بھی تقدیرکو بھا گیا۔

اشک آنکھوں میں تھے وہ روانہ ہوئی
موت کی ایک ہچکی بہانہ ہوئی

اک سکوں اس کے چہرے پہ چھانے لگا
پھر تو میت کو اسکی سجانے لگا

مدتیں ہو گئیں آج بوڑھا ہے تو
جو پڑا ٹوٹی کٹھیا پہ کوڑا ہے تو

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.